محبت کا آخری سفر
محبت کا آخری سفر از پری وش تالپور قسط نمبر2
"عائشہ کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہی ہو "
"آریان کے پوچھنے پر عائشہ نے اسکول والا سارا واقعہ اسے بتا دیا "
"پتا نہیں کیوں آریان مرد ایسا کیوں کرتا ہے کیوں کسی معصوم کے دل سے کھیلتا ہے "
"عائشہ نے دکھ سے کہا دوسری طرف سے آریان نے قہقہہ لگایا"
"ارے میری جان تم کیوں پریشان ہوتی ہو یے فلرٹی لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں لڑکیاں بھی بیوقوف ہیں جو خود کو ہی مار دیتی ہیں"
"آریان نے جیسے اس لڑکی پر مذاق اڑایا عائشہ کو اس کی بات اچھی نہیں لگی تھی "
"اسے درد بھی تو کتنا بڑا ملا تھا کوئی اس کے اندر سے کھیل گیا تھا اس کی محبت کو کھیل سمجھ کر کھیلا گیا ہاں اسے خود کو مارنا نہیں چاہیے تھا یے گناہ کیا مگر اسے بیوقوف بنا کر اس لڑکے نے بہت برا کیا ایسے لڑکے نفرت کے قابل بھی نہیں ہوتے میری نظر میں "
عائشہ کے اندر جیسے آگ لگی ہوئی تھی غصے سے اس نے کہا دوسری طرف آریان بلکل خاموشی سے ڈرائیور کرتا رہا اسے اپنی منزل پر اتار کر بنا کچھ کہے چلا گیا عائشہ اس کے ایسے رویے پر حیران سی کافی دیر تک وہیں کھڑی رہی"
"کوئی رات ایسی نہیں ہوتی تھی جو وہ آریان سے بنا بات کیے سوتی ہو اپنی ہر بات اسے بتا کر پھر سوتی تھی مگر رات میں آریان نے کال نہیں کی تھی اس نے بھی کال کرنی مناسب نہ سمجھی کے شاید بزی ہو تھوڑی دیر میں کر لے گا پھر پتہ نہیں اس کی کب آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا"
"آج سنڈے کا دن تھا وہ نماز پڑہ کے دیر تک سوتی رہی دس بجے اٹھی تو اس نے سب سے پہلے اپنا موبائل چیک کیا کہ شاید رات میں آریان کی کال آئی ہو مگر اسے حیرت ہوئی آریان کی نا کوئی کال تھی نا کوئی میسج اسے بے چینی ہونے لگی اس نے کال کی تو نمبر بند ملا اس کی پریشانی اور تشویش اور بڑہ گئی"
"اسے کچھ ہوا تو نہیں "
"اور یے سوچ ہی اس کی روح فنا کر رہی تھی نہ اس نے ناشتہ بنایا نہ شام کو کھانا تیار کیا "
"بس ہر پل موبائل کا نمبر ملاتی رہی جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو اس نے اپنا بیگ اٹھایا عبایا پہنا اور باہر نکل آئی "
"راستے میں رکشہ کروا کر اس کے ہوسپیٹل گئی مگر وہاں پر بتایا گیا سر آج کا پورا دن ہوسپیٹل نہیں آئیں گے "
"کیا یے بات انہوں نے خود کہی تھی کے وہ ہوسپیٹل نہیں آئیں گے "
"عائشہ نے پریشانی سے پوچھا "
"جی صبح سر آریان نے خود فون کر کے کہا ہے "
"کائونٹر پر کھڑے شخص نے کہا تو وہ مایوسی سے وہاں سے پلٹ آئی "
"اس کے گھر کا پتا بھی نہیں معلوم ورنہ اس نے کبھی ایسا نہیں کیا"
"آنسو اس کی گال پر پھیلنے لگے"
"اسے پتا نہیں چل رہا تھا وہ اب کرے بھی تو کیا ، ایک بار آجائے ایسا حشر کروں گی یاد کرے گا کتنا تڑپایا ہے ایک دن میں مجھے، وہ بے بسی سے آنسو پونچھتی قریبی پارک میں چلی آئی"
"اور وہاں جو منظر اس نے دیکھا اسے دیکھ کر اس کے سر پر پھر نا آسمان رہا نا پیروں میں زمیں وہ اگلی سانس لینا بھی بھول گئی جو خوف کچھ دیر پہلے تھا اب وہاں وحشت سی بھر گئی تھی اس کا دل ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا اور وہ ٹکڑے اس کے پیروں کے سامنے بکھرے پڑے تھے جسے اس نے بڑی مشکل سے سمیٹے اس نے خود کو مظبوط کیا بہت مظبوط کیسے یے صرف اس کا اندر جانتا تھا بے جان قدموں سے اس کی جانب قدم بڑھائے جہاں آریان پیڑ سے ٹیک لگائے کسی لڑکی کو سینے سے لگائے سبز گھاس پر بیٹھا تھا بہت خوشگوار موڈ میں باتیں ہو رہی تھیں "
"جیسے ہی وہ ان کے سامنے آئی آریان جھٹکے سے سیدھا ہوا مگر بہت جلد خود کو بدلا تھا اس کے چہرے پر کوئی دکھ کوئی افسوس کچھ بھی عائشہ کو نظر نہیں آیا اس کا دکھ اور بھی بڑہ گیا "
"ارے عائشہ آپ یہاں "
"اس نے اٹھتے ہوئے کہا "
"عائشہ نے بڑی مشکل سے ظبط کیا ہوا تھا "
"وہ لڑکی بھی کھڑی ہوگئی تھی وہ لڑکی بہت زیادہ خوبصورت تھی میک اپ نے اس کے حسن کو اور بھی نکھار رکھا تھا ایک غرور اس کے چہرے پر عائشہ نے محسوس کیا"
"قندیل یے میری دوست یے عائشہ بہت اچھی لڑکی ہے اور عائشہ یے میری فیانسی ہے مائے لو مائے ہارٹ پانچ سال سے آمریکہ میں تعلیم حاصل کر رہی تھی آج صبح ہی آئی ہے"
"آریان بتا رہا تھا اور وہ کسی بت کی طرح اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی جیسے سامنے کھڑے شخص نے اس کی اوقات دکھائی ہو "
"ہیلو "
"اس لڑکی نے مسکراکر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا"
" اس نے اپنا ہاتھ اس سے ملایا بنا کوئی تاثر چہرے پر لائے اگر وہ حوصلہ نا لاتی تو وہاں اپنا تماشہ ضرور بنواتی اور وہ خود کا تماشہ نہیں بنوانا چاہتی تھی بکھر گئی تھی ٹوٹ گئی تھی اندر سے ریزہ ریزہ ہوگئی تھی پوری دنیا میں اس کا ایک ہی سہارا بنا تھا جو اسے بہت بڑی اور گہری چوٹ لگا گیا تھا مگر وہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی تھی خود میں برداشت رکھتی تھی"
"مجھے تھوڑا کام ہے الحافظ "
"عائشہ سپاٹ چہرے سے بنا کسی کی طرف دیکھے وہاں سے پلٹ گئی"